لیکن یہ وبا اس وقت بھی لگ جاتی ہے جب ہم کسی ایسی چیز یا سطح کو چھوتے ہیں جس پر یہ وائرس پہلے سے موجود ہو۔
اگرچہ ماہرین فی الحال وائرس کی اس نئی قسم پر تحقیق میں مصروف ہیں، تاہم کورونا وائرس کی دوسری اقسام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت سخت جان ہوتی ہیں اور تحقیق کے دوران وہ مختلف مقامات پر نو روز تک زندہ پائی گئی ہیں۔
بقا کی صلاحیت
ان کے باقی رہنے کی یہ صلاحیت ہمارے چہرے کو چھونے کی عادت کے ساتھ مل کر وائرس کو مزید خطرناک بنا دیتی ہے۔
سنہ 2012 میں امریکی اور برازیلی محققین نے عام لوگوں میں سے بغیر کسی امتیاز کے منتخب ایک گروہ کا مشاہدہ کرتے ہوئے پایا کہ ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ بار عوامی مقامات پر مختلف جگہوں کو چھوا تھا۔
ان لوگوں نے ایک گھنٹے کے اندر تین سے زیادہ مرتبہ اپنے منھ اور ناک کو بھی ہاتھ لگایا تھا۔ یہ تعداد آسٹریلیا میں طب کے طلبہ کی تعداد سے کہیں کم ہے جنھوں نے ایک گھنٹے کے اندر اپنے چہرے کو 23 بار چھوا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ طلبہ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے لیکچر سن رہے تھا جہاں باہر کے مقابلے میں دھیان بٹنے کے امکانات کم تھے۔
بعض ماہرین کے نزدیک خود کو چھونے کا یہ رجحان چہرے پر ماسک چڑھانے کو لازمی بنا دیتا ہے تاکہ ایسے وائرس سے بچا جا سکے۔
برطانیہ میں لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیون گریِفِن کا کہنا ہے کہ ’ماسک یا نقاب پہننے سے لوگوں میں چہرے کو چھونے کی عادت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے، جو انفیکشن پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔‘
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
تو چہرے کو چھونے کی اس عادت میں ہم کیسے کمی لا سکتے ہیں؟
کولمبیا یونیورسٹی میں عادات و اطوار کے پروفیسر مائیکل ہالزورتھ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مشورہ دینا آسان مگر اس پر کاربند رہنا مشکل ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو کسی ایسی چیز سے روکنا جو غیرارادی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘
ان کے بقول ’چہرے کو کم بار چھونے کے مقابلے میں بار بار ہاتھ دھونا زیادہ آسان ہے‘
No comments
حداد امہ چینل کو سبسکرائب کریں
Subscribe to the Help haddad ummah channel